رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے۔ عمر رضی اللہ عنہٗ محدثِ امت ہیں:ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے بغض رکھا‘ اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے عمر رضی اللہ عنہٗ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور عرفات کی شام کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر عام طور سے فخر کیا لیکن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر خاص طور سے فخر کیا اور اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا اس کی امت میں ایک محدث ضرور پیدا کیا اور اگر میری امت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ عمر ہوں گے‘‘۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: ’’یارسول اللہ ﷺ! محدث کون ہوتا ہے؟ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کی زبان پر فرشتے بات کرتے ہیں۔‘‘ (حیاۃ الصحابہ(591/3)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اعمال خیر میں رغبت :ایک مرتبہ حضور انورﷺنے اپنے اصحاب سے دریافت کیا: ”آج جنازہ میں کس نے شرکت کی ہے؟“حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں آج جنازہ میں شریک ہوا ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا: آج مریض کی تیمارداری کس نے کی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آج میں نے مریض کی تیمارداری کی ہے۔حضور ﷺ نے پھر استفسار کیا: آج صدقہ کس نے دیا ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا آج میں نے صدقہ دیا ہے۔آپﷺ نے پوچھا آج روزہ کس نے رکھا ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آج میں نے روزہ رکھا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اعمال خیر کے اس شغف کو دیکھ کر حضور ْﷺ نے فرمایا ”عمر رضی اللہ عنہ کیلئے جنت واجب ہوگئی‘ عمر رضی اللہ عنہ کیلئے جنت واجب ہوگئی۔
ایک جن کا انوکھا واقعہ: ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا۔ کسی نے پوچھا اے امیر المومنین! کیا آپ اس گزرنے والے کو جانتے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں ان کے پاس آنے والے جن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام دے کر انہیں بلایا اور فرمایا کہ کیا آپ سواد بن قارب ہیں؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم زمانہ جاہلیت میںکہانت کا کام کرتے تھے؟ اس پر حضرت سواد رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اور کہا امیر المومنین! جب سے میں مسلمان ہوا ہوں کبھی کسی نے میرے منہ پر ایسی بات نہیں کی۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا سبحان اللہ! ہم تو جاہلیت میں شرک پر تھے اور یہ شرک تمہاری کہانت سے زیادہ برا تھا۔ تمہارے تابع جن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی جو خبر دی تھی وہ مجھے بتائو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر حضرت سواد رضی اللہ عنہ نے اپنا تفصیلی واقعہ سناتے ہوئے عرض کیا: اے امیر المومنین رضی اللہ عنہ ! ایک رات میں لیٹا ہوا تھا اور بیداری اور نیند کی درمیانی حالت میں تھا‘ میرا جن میرے پاس آیا اورمجھے پائوں مار کر کہا”اے سواد بن قارب! اٹھ اور میری بات غور سے سن! اگر تیرے اندر عقل ہے تو تو سمجھ لے کہ (قریش کی شاخ) لُوی بن غالب میں ایک رسول مبعوث ہوا ہے جو اللہ کی اور اس کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ جنات حق کو تلاش کررہے ہیں اور سفید اونٹوںپر کجاوے باندھ کر ہر طرف کا سفر کررہے ہیں‘ یہ سب ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا تم سفر کرکے اس ہستی کے پاس جائو جو بنی ہاشم میں چیدہ اورعمدہ ہیں اور ہدایت میں پہل کرنے والا دیر کرنے والے کی طرح نہیں ہوگا بلکہ اس سے افضل ہوگا۔ میں نے اس جن سے کہا مجھے سونے دو ‘مجھے شام سے بہت نیند آرہی ہے۔ اگلی رات وہ میرے پاس آیا اور اس نے مجھے پائوں مار کر پھر گزشتہ رات والی ساری بات بتائی۔ اسی طرح مسلسل تین راتیں وہ جن مجھے آکر بتاتا رہا۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو جانچ لیا ہے
یعنی جن کی بات صحیح معلوم ہوتی ہے اور میں اونٹنی پر سوار ہوکر چل دیا پھر میںمدینہ آیا تو وہاں حضورﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم میں تشریف فرما تھے میں نے قریب جاکر عرض کیا میری درخواست بھی سن لیں آپ ﷺ نے فرمایا ”کہو“ میں نے یہ اشعار پڑھے۔ ترجمہ: ”ابتدائی رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد اور میرے کچھ سو لینے کے بعد مجھے سرگوشی کرنے والا جن میرے پاس تین رات آتا رہا اور جہاں تک میں نے اسے آزمایا وہ جھوٹا نہیں تھا وہ ہر رات مجھ سے یہی کہتا کہ تمہارے پاس ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم آیا ہے جو قبیلہ لوی بن غالب سے ہے۔ اس پر میں نے سفر کی مکمل تیاری کرلی اور تیز رفتار والی اونٹنی مجھے لے کر ہموار اور وسیع میدانوں میں چلتی رہی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز عبادت کے لائق نہیں ہے اور آپ ہر بات کے بارے میں قابل اعتماد ہیں اور اے قابل احترام اور پاکیزہ لوگوں کے بیٹے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تک پہنچنے کیلئے تمام رسولوں میں سب سے زیادہ قریبی وسیلہ ہیں۔ اے روئے زمین پر چلنے والے سب سے اچھے انسان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان تمام اعمال کا حکم فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کی طرف آرہے ہیں۔ ہم ان اعمال کو ضرور کریں گے چاہے ان اعمال کی محنت میں ہمارے بال سفید ہوجائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کے لیے میرے سفارشی بن جائیں جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور سفارشی سواد بن قارب کے کام نہیں آسکتا۔“ میرے یہ اشعار سن کر حضور ﷺ اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بہت زیادہ خوش ہوئے اور ان سب کے چہروں سے خوشی عیاں ہونے لگی۔ یہ قصہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت سواد رضی اللہ عنہ سے لپٹ گئے اور فرمایا ”میری دلی خواہش تھی کہ میں تم سے یہ ساراقصہ سنوں۔کیا اب بھی وہ جن تمہارے پاس آتا ہے؟ حضرت سواد رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب سے میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا ہے وہ نہیں آیا اور اس جن کی جگہ اللہ کی کتاب نعم البدل ہے۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: ہم ایک دن قریش کے ایک قبیلہ ’’آل ذریح‘‘ میں تھے انہوں نے اپنا بچھڑا ذبح کیا‘ قصاب اس کاگوشت بنا رہا تھا کہ اتنے میں ہم سب نے بچھڑے کے پیٹ میں سے آواز سنی اور بولنے والی کوئی چیز ہمیں نظر نہیں آرہی تھی وہ یہ کہہ رہا تھا، اے آل ذریح یہ کامیابی والا کام ہے ۔ ایک اورپکارنے والا فصیح زبان میں یہ اعلان کررہا تھا کہ ’’وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں